باٹا Bata کی کہانی آج سے چار سو سال پہلے سنء سولہ سو بیس میں چیکو سلو واکیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہوئی جہاں باٹا Bata نامی خاندان نے موچی کا کام شروع کیا تھا-
یہ خاندان چار سو سال سے اسی جگہ جوتا بنانے کا کام کر رہا تھا بالآخر اس خاندان کی آٹھوی پیری میں ایک نوجوان جس کا نام تھامس جارج بٹا تھا اس نے 1894ء میں اپنے آباؤ اجداد کے پیشے کو بڑے پیمانے پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا-
جوتا بنانا آبائی پیشہ ہونے کی وجہ سے تھامس جارج Thomas George کے لیے آسان تھا جس کی وجہ سے اس نے اسی کو اپنایا تقریباً تین سو سال سے یہ کام ان کے خاندان میں چلا آ رہا تھا لیکن کسی نے اس میں ترقی کی طرف توجہ نہ دی اور اس کاروبار کو پھیلانے کی کوشش بھی نہ کی-


جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ باپ دادا سے ایک دکان چلی آرہی ہے اولاد میں وراثت کے طور پر تقسیم ہو جاتی ہے وہ دکان بڑی ہونے کے بجائے مزید ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس کاروبار کو پھیلایا اور بڑھایا بھی جا سکتا ہے-
تھامس جارج Thomas George نے خاندانی روایت کو توڑنے کے لئے کارخانے کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھ دس ملازمین بھی رکھ لئے تقریبا ایک سال یہ کام چلا ہوگا کہ تھامس جارج Thomas George قرض کے بوجھ تلے دبنے لگا اور مالی پریشانیوں نے اسے آگہرا اسے ہر قدم پر ناکامی ہو رہی تھی-
May You Also Like – Hazrat Ibrahim Story in Urdu | Hazrat Ismail Ki Qurbani Ka Waqia
لوگ اس کے بنائے ہوئے جوتے نہیں خریدتے تھے اور ملازمین بھی اس سے ناخوش تھے جس کی وجہ سے تھامس جارج Thomas George ہمت ہار کر گھر بیٹھ گیا دکان پر جانا چھوڑ دیا اور پریشان رہنے لگا۔
انہی دنوں میں اس کی ملاقات ایک بوڑھے مزدور سے ہوئی اور اس نے اس کے چہرے سے پریشانی بھانپ لی اور وجہ پوچھی تو تھامس جارج Thomas George نے ساری صورت حال بتا دی معاملہ سننے کے بعد بوڑھے مزدور نے کہا کہ بیٹا تم ہمیشہ یہی خیال کرو کہ میری پروڈکٹ مہنگی ہے اور مزدوروں کو ان کی محنت سے کم تنخواہ دے رہا ہوں اس طرح تم یہ کوشش کرتے رہو گے کہ کسی طرح میری پروڈکٹ سستی ہو اور میں مزدوروں کو زیادہ تنخواہ دو۔
دوستوں یہ بات تیر کی طرح تھامس جارج Thomas George کے دل کو لگی اور ہمیشہ کے لئے اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی تھامس جارج Thomas George چمڑا کے جوتے بنانے کے ساتھ ساتھ موٹے کپڑے سے جوتے تیار کرنے لگا اور لوگوں نے بھی انہیں بہت پسند کیا ان جوتوں کے مقبولت اور مانگ بڑھنے سے ملازمین کی تعداد دس سے پچاس ہوگی تھامس جارج Thomas George نے پروڈکٹ کے سستے ہونے کی طرف توجہ دیں اور اس طرح ملازمین کی بھی اجرت کا خیال رکھا۔
اس کے علاوہ تھامس جارج Thomas George نے بٹا Bata پرائز بھی متعارف کروائیں جن کے مطابق پروڈکٹ کی قیمت نو کی ہندسہ پرختم ہوتی تھی اس تکنیک کے مطابق کسی بھی چیز کی قیمت 99 ننانوے یا 19.99 پر ختم ہوتی تھی جو دیکھنے میں سو یا بیس سے بہتر لگتی تھی حالانکہ ایک عدد کا ہی فرق پڑتا ہے۔
اب صرف چار سالوں میں باٹا Bata شوز کمپنی کا کام اس حد تک بڑھ گیا کہ مشینوں کی ضرورت پڑنے لگی کیونکہ اس کے علاوہ اب ڈیمانڈ پوری نہیں کی جا سکتی تھی اب مشینوں اورٹیکنالوجی سے کم وقت اور قلیل خرچ سے زیادہ پروڈکٹ بننے لگی۔
May You Also Like – History of Ertugrul Gazi | ارطغرل کون تھا ؟| in Urdu
جبکہ تھامس جارج Thomas George ہمیشہ ایک تاجر کی طرح سوچتا رہتا ہے کہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے وہ کاروباری حضرات سے مشاورت بھی کرتا اور ان کے مشوروں پر عمل بھی کرتا چنانچہ 1904 میں اس نے اپنی کمپنی میں مکینیکل پروڈکٹ تکنیک متعارف کروائیں اس طرح جلد ہی باٹا Bata کمپنی یورپ کی پہلی جوف سازکمپنی بن گی-
انیس سو بارہ میں اس کمپنی کے ملازمین چھ سو ہو چکے تھے جو اس کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت تھا اس کے علاوہ 1904 میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو یہ ان کے لئے قرعہ فال ثابت ہوئی۔


کیونکہ اب تھامس جارج Thomas George کے پاس جرمن فوج کے جوتے بنانے کے لیے آرڈر انے لگے اور 1914 سے لے کر 1918 تک اس سے پہلے سے دس گنا زیادہ ملازمین رکھنے پڑ گئے مگر چونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کاروباری دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا جنگ کے بعد اس کا کاروبار بہت مندا ہوگیا لیکن اس نے ہمت بلکل نہیں ہاری ہے اور انیس سو پچیس میں پھرسے اس کا بزنس عروج کی طرف بڑھنے لگا۔
اب باٹا Bata کمپنی کئی ایکڑ زمین تک پھیل چکی تھی مگر ایک دن جبکہ تھامس جارج Thomas George انیس سو بتیس میں 56 سال کی عمر میں جہاز پر سوار تھا تو بدقسمتی کی وجہ سے وہ جہاز کسی حادثے کا شکار ہوگیا اور اس کی موت واقع ہوگئی وہ خود تو اس دنیا سے چلا گیا لیکن آج بھی اس کے لگائے ہوئے درخت سے دنیا بھر کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
آج باٹا Bata کا ہیڈ کوارٹرز سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں واقع ہے دنیا کے 18 ممالک میں باٹا Bata کی فیکٹریاں قائم ہے اور دنیا بھر کے ستر سے زیادہ ممالک میں 52 سو سے بھی زیادہ سٹورز ہیں انیس سو تیس میں بھارت کے شہر کلکتہ میں بھی بٹا نگر قائم کیا گیا جہاں پر7500 کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں۔
May You Also Like – Why Fish Live in Water? Must Read – Hazrat Ali (R.A) Answer
باٹا Bata پہلی شوز کمپنی ہے جس سے انیس سو ترانوے میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ آرگنائزیشن کا سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا تھامس جارج بٹا Thomas George Bata کی یہ پالیسی تھی کہ دنیا میں جہاں بھی باٹا Bata فیکٹری لگائی جائے اس کے نزدیک ایک مثالی قصبہ بھی قائم کیا جائے جہاں رہنے والے لوگوں کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی باٹا Bata کی فیکٹریاں قائم ہے اس کے قریب باٹا Bata کے نام سے ایک قصبہ بھی موجود ہیں جیسے کہ بھارت میں باٹا نگر پاکستان میں باٹاپور ہالینڈ میں باٹا ڈراپ اورفرانس میں باٹا ولا اور ایسے ہی مزید کئی شہر باٹا Bata کے نام سے قائم ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آج باٹا Bata روزانہ تقریبا دس لاکھ کسٹمرز کو ڈیل کرتا ہے خاص طور پر انڈیا پاکستان یورپ آسٹریلیا اور تقریبا پورے ایشیا میں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہے ٹورنٹو کینیڈا میں اسی خاندان کے ایک فرد سوجا باٹا نے باٹا شوز میوزیم بھی قائم کر رکھا ہے
باٹا Bata فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے شاید باٹا Bata کے قائم و دائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
اگر آپ اسی طرح بڑی کمپنیوں اور بڑے لوگوں کی کامیابیوں کی داستان مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو کمنٹس میں اپنی دلچسپی کا اظہار کریں اور اس پوسٹ کو لائک اور شیئر ضرور کیجئے گا اپنا اپنے دوستوں اور گردونواح کے تمام لوگوں کا بہت خیال رکھیے گا اللہ حافظ
May You Also Like – Why Masjid Nabawi is closed at night?